واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 

حضرت ابوبکر شبلی

رحمتہ اللہ علیہ

 

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کی ولادت باسعادت ۲۴۷ہجری سامرہ نزد بغداد میں ہوئی۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا اسم گرامی جعفر بن یونس اور کنیت ابوبکر ہے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ     کے والد خلیفہ بغداد کے چوبدار تھے اور حضرت ابوبکر شبلی  رحمتہ اللہ علیہ    نہاوند نامی قصبے کےحاکم تھے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا شمار معرفت و حقیقت کے معتبر صوفیاکرام میں ہوتا ہے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے حضرت امام مالک  رحمتہ اللہ علیہ    کے پیروکار تھے اوربہت سی احادیث بھی آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے تحریر کررکھی تھیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ایک روز خلیفہ نے بغداد میں بلایا اور حسن خدمات کےصلے میں خلعت پہنایا۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    خلیفہ کے دربار سے رخصت ہوکر نکلے ہی تھے کہ اتفاقاً چھینک آگئی اور آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے آستین خلعت سے ہی ناک صاف کرلی۔ مخالفین نے فوراً اس کی شکایت خلیفہ سے کی کہ یہ شخص کسی طرح بھی لائق خلعت نہیں ہے حضور کے عطا کردا خلعت سے اس نے ناک صاف کی ہے اوار یہ انتہائی بے ادبی ہے۔ جس پر خلیفہ نے خفاء ہوکر آپ  رحمتہ اللہ علیہ    سے خلعت واپس لے لی اور آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کو برطرف کردیا۔

اس واقعہ نے حضرت ابوبکر شبلی  رحمتہ اللہ علیہ    کی زندگی ہی بدل ڈالی۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے کہا کہ اگر کوئی مخلوق کے عطیہ کو بطور رومال استعمال کرتا ہے تو اسے منسب سے معزول کردیاجاتا ہے اور جو شخص خلعت معرفت الٰہی کی قدر نی کرے تو اس کا کیا حال ہوگا۔ یہی سوچ کر آپ  رحمتہ اللہ علیہ    تارک الدنیا ہوگئے اور حضرت خیرنساج  رحمتہ اللہ علیہ    کے ہاتھ پر جاکر توبہ کی اور بیعت ہوگئے۔ حضرت شیخ نساج  رحمتہ اللہ علیہ    سے کچھ عرصہ فیض حاصل کرنے کے بعد حضرت شیخ نساج  رحمتہ اللہ علیہ    نے آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کو حضرت جنید بغدادی  رحمتہ اللہ علیہ    کی خدمت میں بھیج دیا۔

جب آپ  رحمتہ اللہ علیہ    حضرت جنید بغدادی  رحمتہ اللہ علیہ    کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان سے عرض کیا کہ لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے پاس ایک گوہر نایاب ہے لہذا آپ  رحمتہ اللہ علیہ    یا تو اس کو میرے ہاتھ فروخت کردیں یا پھر بغیر قیمت کے دیدیں۔ حضرت جنید بغدادی  رحمتہ اللہ علیہ    نے فرمایا اگر میں فروخت کرنا چاہوں تو تم خرید نہیں سکتے کیونکہ تمہارے اندر قوت خرید نہیں ہے اور اگر مفت دے دوں تو اس کی قدرقیمت کو نہ سمجھ سکوگے۔لہذا اگر تم وہ گوہر حاصل کرنا چاہتے ہو تو بحر توحید میں غرق ہوکر فنا ہوجاؤ پھر اللہ تعالٰی تمہارے اوپر صبر و انتظار کے دروازے کشادہ کردے گا اور جب تم دونوں کو برداشت کرنے کے قابل ہوجاؤ گے تو وہ گوہر تمہارے ہاتھ لگ جائے گا۔

حضرت ابوبکر شبلی  رحمتہ اللہ علیہ    نے حضرت جنید  رحمتہ اللہ علیہ    سے پوچھا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے فرمایا ایک سال تک گندھک بیچ، چنانچہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    ایک سال گندھک بیچتے رہے۔پھر حضرت جنید  رحمتہ اللہ علیہ    نے فرمایا کہ ایک سال تک بھیک مانگو ۔ پھر آپ  رحمتہ اللہ علیہ    ایک سال تک بھیک مانگتے رہے۔ پھر حضرت جنید بغدادی نے آپ  رحمتہ اللہ علیہ    سے کہا کیونکہ تم نہاوند کے ہاتھوں بہہ چکے ہو لہذا وہاں جاکر ہر فرد سے معافی طلب کرو۔ چنانچہ جب آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نہاوند گئے  تو ایک ایک شخص سے معافی مانگی۔ ایک شخص نہاوند موجود نہیں تھا لہذا آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے ایک لاکھ درہم خیرات کردیے۔ لیکن اس کے باوجود بھی آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے دل میں خلعش باقی رہ گئی۔ جب دوبارہ حضرت جنید کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ ابھی تمہارے دل میں جاہ باقی ہے لہذا ایک سال تک اور بھیک مانگو۔ چنانچہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    بھیک سے جو کچھ ملتا اس کو حضرت جنید  رحمتہ اللہ علیہ    کے پاس لاکر فقرا میں تقسیم کردیتے۔

ایک سال کے بعد حضرت جنید بغدادی نے آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کو فقرا کی خدمت گزاری کی شرط پر اپنے پاس رکھ دیا۔ ایک سال بعد  حضرت جنید  رحمتہ اللہ علیہ    نے پوچھا تمہارے نزدیک نفس کا کیا مقام ہے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے جواب دیا میں خود کو تمام مخلوقات سے کمتر تصور کرتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت جنید  رحمتہ اللہ علیہ    نے فرمایا آج تمہارے ایمان کی تکمیل ہوگئی ہے۔

ابتدائی دور میں جو کوئی آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے سامنے خدا کانام لیتا آپ  رحمتہ اللہ علیہ    اس کا منہ شکر سے بھر دیتے اور بچوں میں محض اس نیت سے شیرینی تقسیم کرتے کہ وہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے سامنے اللہ اللہ کرتے رہیں۔ پھر بعد میں یہ کیفیت ہوگئی کہ خدا کے نام لینے والوں کو روپے اور اشرفیاں دیا کرتے تھے۔ پھر اس مقام پر پہنچ گئے کہ تلوار ہاتھ میں لیے پھرتے اور فرماتے جوکوئی میرے سامنے اللہ کا نام لے گا میں اس کا سر قلم کردوں گا۔ لوگوں نے پوچھا آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے اپنا پہلا رویہ کیوں تبدیل کیا فرمایا پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ لوگ حقیقت و معرفت کے اعتبار سے خدا کا نام لیتے ہیں لیکن اب مجھے معلوم ہوا کہ وہ  صرف محض عادتاً لیتے ہیں جس کو میں جائز تصور نہیں کرتا۔

آپ  رحمتہ اللہ علیہ    سے بے شمار کرامات ظہورپذیر ہوئیں۔ ایک دفعہ سکر کی حالت میں دریائے دجلہ میں چھلانگ لگادی لیکن ایک موج نے پھر کنارے پر پھینک دیا۔ ایک دن پھر عشق الٰہی میں ایسے مستغرق ہوئے کہ آگ میں کود پڑے مگر آگ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے اوپر اثر انداز نہ ہوسکی۔ اس کے بعد بھی اکثر مہلک مقامات پر پہنچ کر خود کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کو کوئی گزند نہ پہنچی۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    اس حال پر پہنچ گئے کہ لوگوں نے آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کو پاگل سمجھنا شروع کردیا۔ پھر پاگل سمجھ کر آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کو پاگل خانے بھیج دیا۔

ایک مرتبہ عید کے دن سیاہ لباس میں ملبوس تھے اور وجد کا عالم تھا جب لوگوں نے سیاح لباس پہننے کی وجہ دریافت کی تو آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے فرمایا کہ میں نے مخلوق کے ماتم میں سیاہ لباس پہنا ہے اس لئے کہ پوری مخلوق خدا سے غافل ہوچکی ہے۔ مجاہدات کے دوران آپ  رحمتہ اللہ علیہ    بار بار اپنی آنکھوں میں نمک بھر لیتے تاکہ نیند کا غلبہ نہ ہو۔ ایک مرتبہ چمٹی لے کر اپنا گوشت نوچنا شروع کردیا تو حضرت جنید  رحمتہ اللہ علیہ    نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے فرمایا کہ جو حقائق مجھ پر منکشف ہوتے ہیں ان کی مجھ میں طاقت نہیں۔ اس لئے یہ عمل کررہا ہوں تاکہ ایک لمحہ کے لئے سکون مل جائے۔

ایک مرتبہ نئے کپڑے جسم سے اتارکر جلا ڈالے اور جب لوگوں نے عرض کیا کہ شریعت میں بلا وجہ مال کا ضیاع حرام ہے تو فرمایا کہ قرآن نے کہا ہے"  جس شہ پر تمہارا قلب مائل ہوگا اس کو بھی تمہارے ساتھ آگ میں جلادینگے" کیونکہ میرا قلب اس وقت نئے کپڑوں پر مائل ہوگیا تھا اس لئے میں نے ان کو دنیا ہی میں جلا ڈالا۔

جب آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا وقت آخرت قریب آیا تو حاضرین سے فرمایا مجھے وضو کراؤ۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    وضو کرتے ہوئے اضطرابی کیفیت میں داڑھی میں خلال کرنا بھول گئے چنانچہ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    نے دوبارہ وضو کیا۔ جب آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کے اوپر نزاع کا عالم تھا تو ایک جماعت نماز جنازہ پڑھنے کے لئے آپہنچی۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کو بذریعہ کشف اس کا پتہ چل گیا۔ کہنے لگے کہ یہ عجیب بات ہے کہ زندہ ہی کی نماز جنازہ پڑھنے چلے آئے ہیں۔

حضرت ابوبکر شبلی  رحمتہ اللہ علیہ   ۲۷ذی الحج ۳۳۴ہجری میں اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ    کا مزار اقدس سامرہ بغداد میں ہے۔